Friday, December 30, 2016

ثنا خوان رسول جنید جمشید حضرت پیر بکوٹی کے سسرالی پجہ شریف کے قاضیوں کے داماد تھے
  ان کی اہلیہ نیہا جمشید پجہ شریف میں پیر بکوٹیؒ کی اہلیہ گل نقشہ بیگم (مائی صاحب) کے سگے بھتیجے ٹیچر عبدالرحمان کی پوتی تھیں
، انتقال کے فوراً بعد کرنل قاضی ضیاالرحمان انور کی اہلیہ کرنل یاسمین اپنی دو بچیوں مریم ضیا اور سحرش ضیا کے ہمراہ لاہور منتقل ہو گئیں تھیں

**************************

تحقیق و تحریر

محمد عبیداللہ علوی 

**************************

ثنا خوان رسول جنید جمشید مرحوم کے ساتھ طیارہ حادثہ میں جاں بحق ہونے والی ان کی اہلیہ نیہا جمشید کا تعلق حضرت پیر فقیراللہ بکوٹیؓ کے آزاد کشمیر میں چکار کے قریب درگاہ پجہ شریف کے قاضی خاندان سے تھا اور وہ پجہ شریف میں ان کی اہلیہ گل نقشہ بیگم (مائی صاحب) کے سگے بھتیجے ٹیچر عبدالرحمان کی پوتی تھیں ، نیہا جمشید کا اصل نام مریم ضیا تھا جبکہ ان کے والد کرنل قاضی ضیاالرحمان انور کا19 فروری 1992  کو دوران سروس انتقال ہوا تھا، انتقال کے فوراً بعد کرنل قاضی ضیاالرحمان انور کی اہلیہ میانوالی کے اعوان قبطیلہ سے تعلق رکھنے والی کرنل یاسمین اپنی دو بچیوں مریم ضیا اور سحرش ضیا کے ہمراہ لاہور منتقل ہو گئیں تھیں۔
یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ ۔۔۔۔ ہر ماں کو اپنا بچہ نو ماہ تک اپنے پیٹ میں رکھ کر ہی اسے دنیا میں لانا پڑتا ہے، یہ بھی حقیقت ہے کہ ۔۔۔۔ اس لیبر کے عوض ماں کو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے بعد سب سے بڑا مقام ملتا ہے،ماں کو اولاد کیلئے دنیا کی سب سے بڑی ہستی قرار دیا گیا ہے اور اسی وجہ سے ایک انسان کے بعد از مرگ سب سے بڑے خواب یعنی جنت الفردوس کو بھی ماں کے قدموں تلے رکھ دیا گیا ہے ۔۔۔ مگر ۔۔۔۔ ماں جب اپنی اولاد کو اپنے ان لہو کے رشتوں یعنی ددھیالیوں سے ہی متنفر کر دے ۔۔۔۔ انہیں ان کی اصل کی طرف رجوع کرنے کے بجائے ۔۔۔۔ انہیں حالات کے حوالے کر کے بے نسب اور بے اصل بنا دے، ان کے رشتے ناطے میں بھی اس کے ان خونی رشتوں کو بلایا جائے نہ ان سے کوئی صلاح ہی کی جائے تو وہ زندگی بھر اپنی شناخت کو دھونڈتے رہتے ہیں ۔۔۔ تو میرے خیال میں ۔۔۔ ایسی عورت ماں کہلانے کی مستحق نہیں ہو سکتی ۔۔۔ وہ اولاد جننے والی ڈائن اور خود ایک بے نسبی اور بے اصلی عورت ہوتی ہے ۔۔۔۔ جنید جمشید کی اہلیہ نیہا جمشید کے ساتھ بھی ایسا ہی المیہ ہوا  ہے ۔۔۔ ورنہ ۔۔۔۔ اگر جنید جمشید جیسا عاشق رسول اس بات سے آگاہ ہوتا کہ ۔۔۔۔ نیہا (مریم ضیا) کا تعلق ۔۔۔۔ آزاد کشمیر ، ہزارہ اور سرکل بکوٹ کے مجدد حضرت پیر فقیراللہ بکوٹیؒ کے اس محسن خاندان سے ہے جس نے  ۔۔۔ در یتیم  پیر فقیراللہ
بکوٹیؒ کی پرورش کی ، انہیں جوان کیا اور ان کے عقد میں اپنی بیٹی بھی دی ۔۔۔۔ تو جنید جمشید پجہ شریف اور بکوٹ شریف سر کے بل چل کر آتے اور حضرت پیر بکوٹیؒ کو خراج عقیدت پیش کرتے۔۔۔۔ کاش ایسا ہوتا
مریم ضیا (نیہا جمشید) اور سحرش ضیا (رمشا ضیا) کے والد کرنل  قاضی ضیا الرحمان انور کے والد قاضی عبدالرحمان ریالہ اور مولیا میں استاد بھی رہے، ان کے قاضی ضیا کے علاوہ دو اور فرزند بھی ہیں، ایک قاضی سجاد تھے جن کا چند سال قبل انتقال ہو چکا ہے اور سب سے چھوٹے قاضی محمودالرحمان مظفر آباد میں ٹیچر ہیں، ان کے دادا قاضی ولایت اللہ بھی چار بھائی تھے جن میں سے قاضی ولی احمد ۔۔۔۔ حضرت پیر فقیراللہ بکوٹی کے خسر تھے، ان کی بیٹی ۔۔۔۔ گل نقشہ بیگم ۔۔۔ پیر بکوٹی کی سب سے چھوٹی اور آخری اہلیہ تھیں، ان کا مزار مائی صاحبہ کے نام سے پجہ شریف میں موجود ہے اور یہاں پر ہر سال نومبر میں قاضی محمود الرحمان عرس بھی کرواتے ہیں۔
بیروٹ کے علوی اعوان اور پجہ شریف کا قاضی خاندان قومی کوٹ آزاد کشمیر کے حافظ جان محمد کی اولاد سے ہیں اور یوں اج کے قومی کوٹ، رحیم کوٹ،پجہ شریف وغیرہ کے قاضی صاحبان اور بیروٹ کے علوی آعوان آپس میں کزنز ہیں، اعوان مورخ محبت حسین اعوان نے اپنی کتاب ۔۔۔۔ تاریخ علوی آعوان (مطبوعہ1999 کراچی) ۔۔۔ کے صفحہ 772 پر ایک تفصیلی شجرہ نسب دیا ہے جس میں پجہ شریف کے قاضیوں اور بیروٹ کے علوی اعوانوں کی تفصیلات موجود ہیں ۔۔۔ بیروٹ میں علوی اعوانوں کے جد امجد ۔۔۔ مولانا قاضی نیک محمد علوی 1830-40 کے درمیان یہاں کے کاملال ڈھونڈ عباسی خاندان کی دعوت پر تشریف لائے، انہیں یہاں جائیداد بھی ہبہ کی گئی اور انہوں نے محمود خان عرف بھاگو خان، عاقی خان اور دیگر کے ساتھ مل کر بیروٹ کی دوسری جامع مسجد بھی تعمیر کی،اسی مسجد میں حضرت پیر بکوٹیؒ نے بھی تقریباً دس سال تک امامت و خطابت فرمائی اور کوہسار بھر میں اسی مسجد میں پہلی بار نماز جمعہ کا بھی 1907 میں آغاز کیا، کاملال ڈھونڈ عباسی خاندان نے انہیں بھی سترہ کنال اراضی ہبہ کی، یہاں پر ہی انہوں راقم الحروف کے پڑدادا حضرت مولانا قاضی عبدالعزیز علوی کی بیوہ بیٹی ستر جان سے عقد کیا، ان کے بیٹے حضرت پیر حقیق اللہ بکوٹیؒ میرے دادا حضرت مولانا قاضی میاں میر جی کے داماد تھے، میرے چچا اور مفتی سرکل بکوٹ مولانا عبدالہادی علوی ۔۔۔۔ پیر بکوٹیؒ کے پوتے صاحبزادہ عبدالماجد ماجد بکوٹیؒ کے خسر ہیں جبکہ ۔۔۔۔ میرا  بھتیجا اور سابق ٹیچر محمد طاہر علوی مرحوم کا بڑا بیٹا طیب طاہر علوی ۔۔۔۔ صاحبزادہ عبدالماجد بکوٹیؒ کا داماد ہے ۔۔۔۔ جب پیر بکوٹیؒ کے ساتھ راقم الحروف اتنے رشتوں میں پرویا ہوا ہو تو ۔۔۔ پیر بکوٹیؒ سے متعلق ہر نیوز اس کی اپنی خبر ہوتی ہے  اور وہ اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتا ۔۔۔ جنید جمشید کی رشتہ داری پر بیروٹ کے علوی اعوانوں کو بھی فخر ہے ۔۔۔۔ کاش ایک بے اصل اور بے نسب خاتون کی انا آڑے نہ آتی۔۔۔ اور یہ ثناخوان رسول گلشن پیر بکوٹیؒ کا بھی بُلبل ہوتا۔


**************************
نہ چھیڑ ان خرقہ پوشوں کو، ارادت ہو تو پوچھ ان سے 
ید بیضا لئے بیٹھے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی آستینوں میں
**********************
فلسطینی زیتون کے اوریجنل باغات
 سرکل بکوٹ میں حضرت پیر بکوٹیؒ کی جائیداد میں ہیں ۔
----------------------------
نبی خاتم الزماں ﷺ نے آپؒ کو فلسطین سے مرحمت فرمائے تھے اور انہیں للال شریف کی لیتری میں لگانے کا حکم دیا تھا ۔
----------------------------
زیتون کے یہ پودے برٹش فوج کا ایک کشمیری ملازم ۔۔۔۔ فضل الٰہی ۔۔۔۔ فلسطین سے پہلے بیروٹ لایا اور وہاں سے للال شریف ۔
----------------------------
یہ میرے زیتون ہی نہیں ۔۔۔۔ میرے آم کے درخت بھی ہیں ۔۔۔۔ حضرت پیر بکوٹیؒ
----------------------------
خانوادہ پیر بکوٹیؒ کی اجازت سے جتنے چاہیں یہ ،،،، کووگُلیاں،،،، کھائیں، کسی نے ان درختوں کو نقصان پہنچانے یا چوری کی کوشش کی تو  اس کی ٹانگ یا بازو بلکہ مقدر بھی سلامت نہیں ۔
************************
روایت بشکریہ
 محمد امین
 (پڑ پوتا فضل الٰہی مرحوم، ضلع باغ، آزاد کشمیر
***********************

    اہل کوہسار میں سے بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔ سرکل بکوٹ میں فلسطینی زیتون کے اوریجنل باغات کہاں ہیں ۔۔۔۔۔؟ اس کے بارے مین اہم انکشاف یہ ہوا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔ اوریجنل فلسطینی زیتون کے باغات للال شریف بکوٹ میں ہیں جنہیں زمانے کے مجتہد اور انتہائی پرآزمائش وقت میں اہل کوہسار کے روحانی پشتی بان ۔۔۔۔۔ حضرت پیر فقیراللہ بکوٹیؒ ۔۔۔۔ اپنے آم کے باغات کہا کرتے تھے ۔
ٍ    حضرت کے ایک مرید کا نام فضل الٰہی تھا ۔۔۔۔۔ تعلق آزاد کشمیر کے ضلع باغ سے تھا اور وہ برٹش فوج میں ملازم بھی تھا ۔۔۔۔ جب بھی چھٹی آتا حضرت پیر بکوٹیؒ کی قدم بوسی کیلئے بیروٹ ضرور آتا اور جاتے وقت حضرتؒ سے پوچھتا کہ میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیں ۔۔۔۔؟ حضرت پیر بکوٹیؒ نئے نئے للال شریف بکوٹ منتقل ہوئے تھے ۔۔۔۔ ابھی بس اپنی قیام گاہ اور مسافر خانہ ہی تعمیر کروایا تھا ۔۔۔۔۔ للال شریف کی یہ جگہ بکوٹ کے موجوال عباسیوں کی لیتری تھی اور سنتھے اور تہمن کے چند بوٹے ہی یہاں تھے بلکہ جہاں آپ اپنے لئے دو کمروں کا ذاتی گھر اور مسافر خانہ بنوا رہے تھے وہاں ایک بٹکاڑاور ایک دریک کے درخت سایہ کیلئے موجود تھے ۔
    وہ مرید بھی چھٹی آیا تو دوسرے روز کھوہاس، بیروٹ جا پہنچا مگر اہل بیروٹ نے اسے پیر بکوٹیؒ کی للال شریف ہجرت کے بارے مین بتایا ۔۔۔۔ بیروٹ کی کیٹھوال راجپوت برادری کے چند برگ بھی اس کے ساتھ ہو لئے اور یہ قافلہ کنیر عبور کرنے کے بعد براستہ ہوتریڑی، ہوترول اور بھن، بیروٹ خورد سے للال شریف جا پہنچا ۔۔۔۔۔ فضل الٰہی اپنے ساتھ گھی کی ایک گلنی اور ایک بغروٹہ بھی لایا تھا ۔۔۔۔۔ اس نے گھی کھوہاس، بیروٹ میں پیر بکوٹیؒ کی اہلیہ ستر جانؒ (راقم السطور کے والد مرحوم کی سگی پھوپھی صاحبہ، ان مزار بھی کھوہاس، بیروٹ میں ہے) کی نذر کیا اور بغروٹہ ساتھ رکھا ۔۔۔۔۔ اس نے ایک بڑے تھیلے میں کچھ چپیں (چھوٹے چھوٹے پودے) بھی کندھے پر رکھے ہوئے تھے، بیروٹ میں بھی باوجود اصرار کے اس نے یہ تھیلا کھولا نہ یہ چپیں ہی دکھائیں اور کہا کہ یہ حضرت صاحبؒ کی امانت ہیں ۔۔۔۔۔ رات کو جب سب لوگ سو گئے تو وہ رکوع و سجود میں مشغول پیر بکوٹیؒ کے مصلیٰ کے قریب پہنچ کر بیٹھ گیا ۔۔۔۔ اتنے میں آپؒ نے سلام پھیرا تو وہ آگے بڑھا اور بولا ۔۔۔۔
حضرت ۔۔۔۔ آپ کی امانت حاضر ہے ۔۔۔۔۔ مجھے آپ نے خواب میں کہا تھا کہ پیغمبروں کی تہرتی سے میرے لئے زیتون کے بوٹے لانا ۔۔۔۔ حضرت ۔۔۔۔ نوکری سے چھٹی کی وجہ سے دیر ہو گئی، معافی چاہتا ہوں ۔۔۔۔ آپ قبول فرماویں ۔
ہاں ۔۔۔۔ ہاں، میں خاتم الرسل ﷺ کی محفل میں بیٹھا تھا کہ آپﷺ نے مجھے طلب فرمایا اور میرے سر پر اپنا دست مبارک رکھ کر فرمانے لگے ۔۔۔۔۔ فقیراللہ ۔۔۔۔۔ تم نے بکوٹ ہجرت کر کے بہت اچھا کیا ۔۔۔۔۔ جنہوں نے تجھے یہ ویرانے دئیے ہیں ان خاندانوں کا ہر فرد میرے پاس ہر دور میں آتا رہے گا اور وہ تیرے اور تیری اولاد کے لئے ہمیشہ مخلص رہیں گے ۔۔۔۔۔ تجھے فلسطین سے زیتون کے پودے بھجوا رہا ہوں ۔۔۔۔۔ انہیں اپنی اس پتھریلی زمین میں لگائو ۔۔۔۔ تم اور تمہاری اولاد اور مخلوق خدا بہت نفع پاوے گی ۔۔۔۔۔۔ ،،،،،،
آپؒ نے اس ٹھنڈی کالواخ رات میں فضل الٰہی کے تھیلے سے وہ سارے پودے نکالے ۔۔۔۔ اور ان کو چومنے لگے، اپنے کوزے سے ان پر پانی کا چھڑکائو بھی کیا اور بولے ۔۔۔۔۔ صبح ان سب کو میں خود لگائوں گا ۔۔۔۔۔۔ اور پھر صبح نماز فجر کی ادائیگی کے بعد فضل الٰہی بھی ان کے ساتھ تھا ۔۔۔۔۔ آپؒ برچھی سے سوراخ بناتے اور وہ اس میں زیتون کا پودا لگاتا جاتا     آج پیر بکوٹی کی للال شریف کی جائیداد میں یہ فلسطینی زیتون ایک باغ کا روپ اختیار کر چکا ہے ۔۔۔۔۔ اس کی ۔۔۔۔ کو گُلہاں ۔۔۔۔ شہد کی طرح میٹھی ہیں ۔۔۔۔۔ آپ خانوادہ پیر بکوٹیؒ کی اجازت سے جتنی چاہیں یہ کھائیں لیکن اگر آپ کے من میں یہ ہو کہ آپ ان درختوں کو نقصان پہنچائیں گے، چوری سے اس کی قلمیں کاٹ کر لے جاویں گے تو ہمیشہ یہ یاد رکھئیے گا کہ ۔۔۔۔۔ ایسی سوچ آتے ہی یا آپ کا بازو نہیں یا ٹانگ نہیں اور آپ اپنا لک (کمر بھی اور مقدر بھی) بھی وہاں ہی چھوڑ آویں گے ۔۔۔۔۔ شک ہے اگر تو تجربہ کر کے دیکھ لیں کیونکہ ذاتی تجربے کا کوئی مول اور متبادل نہیں ۔
    راقم السطور کو یہ پتا تو نہیں کہ ۔۔۔۔۔ اگر سرکل بکوت کے جنگلی کہو کے درختوں (Indian Olive) کو اصلی زیتون بنانے کیلئے موجودہ سجادہ نشین حضرت صاحبزادہ پیر محمد زائر بکوٹی مدظلہ العالی قلم کاری کے سلسلے میں کیا موقف رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ وہی بہتر جانتے ہیں ۔۔۔۔ تاہم اگر وہ حضرت پیر بکوٹیؒ کے ان آموں کے درختوں یعنی فلسطین کے اصل زیتون کی قلم ضرورت مندوں کو عطا فرماویں تو میرے خیال میں یہ بھی صدقہ جاریہ ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔؟
--------------------
اتوار16/ستمبر2018

اگر حضرت پیر بکوٹی
ؒ ہمارے سرکل بکوٹ، کوہ مری اور کشمیر کی دھرتی پر نہ آتے تو ۔۔۔۔؟

-----------------
آج ان علاقوں میں ایک مسلمان بھی نہ ہوتا
-----------------
کیونکہ ۔۔۔۔۔۔
انگریزوں نے اس علاقے کے لوگوں کو مرزا قادیانی کے ذریعے گمراہ کرنے کا ٹھیکہ دے دیا تھا ۔
----------------
 1890 میں گھڑیال کرسچن سکول میں قادیانی ڈیسک قائم ہو چکا تھا اور مرزا کی گمراہی میں آنے کے بعد سرکاری نوکری بھی دی جانے لگی تھی
**************************************
تحقیق و تحریر
محمد عبیداللہ علوی
--------------------------
صحافی، بلاگر، مورخ و انتھروپولوجسٹ
**************************************

اور تو اور ۔۔۔۔۔ حضرت پیر بکوٹیؒ کے بیروٹ میں ایک برادر نسبتی ۔۔۔۔۔ میاں محمد جی علوی ۔۔۔۔۔ بھی اس قادیانی گمراہی میں آ چکے تھے اور انہیں برٹش سنسس ڈیپارٹمنٹ میں گریڈ ٹو کی نوکری بھی ملی تھی ۔۔۔۔۔ انہوں نے 1890، 1910 اور 1911ء کی شرقی ہزارہ کی مردم شماری بھی کی تھی ۔۔۔۔۔ 1907ء میں ان کے بڑے صاحبزادے میاں محمد سلیمان علوی نے گورڈن کالج راولپنڈی سے اعلیٰ پوزیشن حاصل کر کے پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن کی تو ۔۔۔۔ قادیاں کے شیطان کے حکم پر انہیں آکسفورڈ یونیورسٹی بھیجنے کی تیاریاں شروع ہوگئیں ۔۔۔۔ یہ بات کسی طرح مرکزی جامع مسجد راولپنڈی کے خطیب ۔۔۔۔۔ مولانا محمد سعید الشمیریؒ آف روات، مری کو پتہ چل گئی (مولانا سعید الشمیری ؒبیروٹ کے حوالےسےؒ رشتے میں پیر بکوٹیؒ کے ہم زلف بھی تھے) ۔۔۔  انہوں نے اس کی اطلاع فوراً پیر بکوٹیؒ کو دی جس پر آپؒ نے بیروٹ کی دوسری بڑی مسجد ۔۔۔۔۔ کھوہاس ۔۔۔۔۔ میں پہلی بار نماز جمعہ کے قیام کا اعلان کیا اور فرمایا کہ یہ نماز جمعہ میں خود پڑھائوں گا ۔۔۔۔۔ جمعہ والے روز اہل بیروٹ کے علاوہ بکوٹ اور دیول تک کے فرزندان اسلام یہ نماز جمعہ پڑھنے کیلئے آ گئے ۔۔۔۔۔حضرتؒ نے پہلے خطبہ جمعہ دیا اور پھر فرمایا کہ فرضوں کے بعد آپ نے جانا نہیں اور دعا کریں گے جس میں تمام نمازیوں کا ۔۔۔۔۔ آمین ۔۔۔۔۔ کہنا ضروری ہے
    بیروٹ میں پہلی نماز جمعہ کے فرضوں کے بعد حضرت پیر بکوٹیؒ نے بارگاہ رب العزت میں ہاتھ اٹھائے اور دعا شروع کی  کہ ۔۔
****** یا رب دو جہاں ۔۔۔۔۔ اگر میرا بھتیجا محمد سلیمان علوی کوہسار کے مسلمانوں کیلئے فائدہ مند ہے ۔۔۔۔ُ تو دین اسلام کیلئے اس سے کوئی کام لینا چاہتا ہے تو میں ان مسلمانوں کے ساتھ تیری بارگاہ میں التجا کرتا ہوں کہ تو اس کی زندگانی میں برکت عطا فرما اور اس کو مسلمانوں کیلئے باعث رشد و ہدایت بنا ۔۔۔۔۔ تمام نمازیوں نے ان کے ساتھ کہا ۔۔۔۔۔ آمین
پھر ایک دو منٹ کیلئے خاموشی چھا گئی ۔۔۔۔۔ حضرت پیر بکوٹیؒ کی پھر رندھی ہوئی آواز ابھری ۔
یا اللہ ۔۔۔۔۔۔ اگر میرا بھتیجا ۔۔۔۔۔ محمد سلیمان علوی ۔۔۔۔۔ گمراہ ہو کر قادیانیت قبول کر چکا ہے یا کرنے والا ہے تو ۔۔۔۔ ربا ۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ خود گمراہ ہو جاوے یا اس خطہ کے مسلمانوں کو گمراہ کرے  ۔۔۔۔۔ تو ۔۔۔۔۔  تو اسے اٹھا لے ۔۔۔۔۔ حضرتؒ کے مصلے کے عین پیچھے محمدسلیمان علوی کے والد اور برٹش  سنسس ڈیپارٹمنٹ کے ملازم مولانا میاں محمد جی علوی منہ کے بل گر کر بے ہوش ہو گئے اور دیگر نمازیوں نے باآواز بلند کہا ۔۔۔۔۔ آمین
    میاں محمد سلیمان علوی ۔۔۔۔۔ جامع مسجد راولپنڈی میں مولانا محمد سعید الشمیری کے پیچھے نماز جمعہ ادا کر کے باہر نکلا ۔۔۔۔۔ سڑک کراس کر رہا تھا کہ ایک سرپٹ دوڑتے گھوڑے کی زد میں آ گیا ۔۔۔۔ وہ نیچے گرا اور اس گھوڑے نے اپنے چاروں سموں سے اس کا چہرہ بھی مسخ کر دیا ۔۔۔۔۔ پیر بکوٹیؒ نماز جمعہ پڑھا کر بکوٹ روانہ ہوئے ابھی آدھا گھنٹہ نہیں گزرا تھا کہ ۔۔۔۔۔ کوہالہ ٹیلیگراف آفس میں موصول ہونے والی ایک تار یا ٹیلیگرام لیکر سرکاری اہلکار بیروٹ کی طرف چل پڑا ۔۔۔۔۔ مگر یہ خبر اس سے پہلے بیروٹ میں والدین کے پاس پہنچ گئی کہ ۔۔۔۔۔ محمد سلیمان علوی واصل جہنم ہو چکا ہے اور اس کی لاش اس قابل نہیں کہ اسے بیروٹ لایا جاوے، اسے پیر ودھائی قبرستان  راولپنڈی میں ہی دفن کیا جاوے گا ۔
    حضرت پیر بکوٹیؒ نے ۔۔۔۔۔ جہاد کشمیر اور کوہسار میں قادیانی سرگرمیوں کے انسداد کیلئے ایک چھاپہ مار ۔۔۔۔۔ تنظیم المجاہدین ۔۔۔۔۔۔ بھی تشکیل دی تھی، اس تنظیم نے غربی کوہالہ اور کشمیری بازار مری میں انگریزوں کی عیاشی کیلئے قائم میخانوں (اور بعض روایات کے مطابق قحبہ خانوں) کو ایک رات کارروائی کر کے صفحہ ہستی سے ہی مٹا دیا ۔۔۔۔ اس تنظیم نے کرسچن ہائی سکول گھڑیال میں قائم قادیانی مرکز پر بھی حملہ کر کے دو کو واصل جہنم اور متعدد کو زخمی کر دیا ۔۔۔۔ مال روڈ مری پر مرزائیوں کے چیلوں کی نام نہاد عبادتگاہ کو بھی نذر آتش کیا ۔۔۔۔ بیروٹ میں نماز جمعہ کے بعد کوہ مری اور سرکل بکوٹ کے ہر گائوں کی مساجد میں نماز جمعہ ہونے لگی ۔۔۔۔۔ اس کے علاوہ یہ مجاہدین ان مساجد میں کوہسار کے راسخ العقیدہ مسلمانوں کو دین اور عقیدے کے لٹیروں کو ان کے ایمان پر ڈاکہ ڈالنے کی سازشوں سے بھی آگاہ کرنے لگے ۔۔۔۔۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کفر کا یہ سیلاب کوہ مری کے راستے انگریز حکومت کے شانوں پر بیٹھ کر سرکل بکوٹ اور موجودہ آزاد کشمیر میں آنے سے بھی رک گیا ۔۔۔۔۔ قارئین و ناظرین کیلئے یہ بات بھی باعث دلچسپی ہو گی کہ حضرت پیر بکوٹیؒ نے پہلی بار کوہالہ پل کو تباہ کرنے کی دھمکی دیکر ۔۔۔۔۔ دہلی اور سری نگر کی سرکاروں کو کہا کہ ۔۔۔۔۔۔۔
****** اگر مجھے پتہ چلا کہ ۔۔۔۔۔ کسی مسلمان کے ساتھ مرزا قادیان کے چیلوں کے کوئی تعلقات ہیں یا ۔۔۔۔۔ وہ کسی مسلمان کو کافر بنانا چاہتے ہیں تو ۔۔۔۔ کوہالہ پل، یہاں موجود سرکاری عمارات، مری میں سرکاری املاک اور سرکاری اہلکار نہیں بچ پائیں گے ۔۔۔۔۔قادیانت نوازروزنامہ سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور کی 13 مئی، 1907ء کی اشاعت کے مطابق پنجاب حکومت نے قادیانوں کو کوہ مری سے اپنی مذموم سرگرمیاں محدود کر کے فوراً لکلنے کی تنبیہہ بھی کر دی تھی ۔۔۔۔۔
    کیا یہ پیر بکوٹیؒ کا کوہسار کے فرزندان اسلام پر ۔۔۔۔۔ احسان عظیم ۔۔۔۔۔ نہیں ہے ۔۔۔۔کہ آج ہم اہل کوہسار الحمدللہ ۔۔۔۔۔ ایک اللہ کو ماننے والے اور ختم نبوت اور ناموس رسالت ﷺ کے سب سے بڑے محافظ اور نگہبان ہیں ۔۔۔۔۔ خداوند قدوس حضرت پیر بکوٹیؒ اور ان کے روشن ضمیر کوہساری رفقاٗء کو ناموس اور ختم رسالت ﷺ کے تحفظ اور راخیالی پر کروٹ کروٹ جنت الفردوس عطا فرماوے اور ساقی کوثر ﷺ کے دست مبارک سے جام کوثرنصیب کرے ۔۔۔۔۔ آمین
    زمانہ طالب علمی میں راقم السطور نے پنجاب یونیورسٹی اور جامعہ کراچی میں روزنامہ زمیندار، روزنامہ انقلاب اور قادیانی نواز انگریزی روزنامہ سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور کا مطالعہ کیا تھا اور وہاں سے مندرجہ بالا پوائنٹس بھی خبروں کی شکل میں نوٹ کئے تھے اور آج حضرت پیر بکوٹیؒ کے حوالے سے پیش کرہا ہوں ۔۔۔۔ اگر آپ بھی اپنی تاریخ، سیاست وغیرہ جاننے کیلئے ان اخؒبارات سمیت دیگر اخبارات اور میگزین دیکھنا چاہیں تو ان کی مائیکرو فلمیں ۔۔۔۔۔ National Archives of Pakistan کی اسلام آباد لائبریری مل سکتی ہپیں ۔۔۔۔۔ یہ ادارہ اٹامک انرجی کمیشن، ہیڈکوارٹر، عقب پاک سیکرٹیریٹ اسلام آباد، پنجاب 

یونیورسٹی لائبریری اور جامعہ کراچی کی مرکزی لائبریری میں موجود ہیں ۔۔۔۔۔
حضرت میاں فقیر اللہ بکوٹی المعروف حضرت صاحبؒ جب پجہ شریف سے مولیا تشریف لائے ۔۔۔۔۔ اس دوران ان کے پڑوسی مکان بنا رهے تهے جہاں پانی کی
بہت قلت تھی ۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔ آپ حضرتؒ نے خود اپنے هاتهوں سے وہاں پر پانی نکالا اور یہ پانی اب بهی محلہ باولی، مولیا میں گلفراز، مشتاق اور نیاز صاحب کی اراضی میں موجود هے ۔۔۔۔۔ جہاں سے روزانہ سینکڑوں لوگ گاگریں بهر بھر کر لے جاتے ہین اور خاص بات یہ هے کہ جتنا نکالو پورا  و جاتا هے اور زیادہ 
نہیں بہتا 
************************
ایک اور ضروری بات
-----------------------
جن مولانا میاں محمد جی علوی کا اس پوسٹ میں ذکر کیا گیا ہے وہ راقم الحروف کے کے دادا جی مولانا میاں میر جی علویؒ (المتوفی 1948ء) کے سگے چھوٹے بھائی تھے ۔۔۔۔۔۔۔ اور بیروٹ میں ان کا گھر ناڑوٹہ میں تھا ۔۔۔۔۔ ان کا دوسرا بیٹا میاں محمد لقمان علوی بھی چیچک کی وباء کی نذر ہو گیا تھا، مولانا میاں محمد جی علوی کا انتقال 1943ء میں ہوا اور کھوہاس مسجد کے جنوب میں بیروٹ کے اجتماعی علوی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں ۔
----------------------------
جمعرات15/نومبر2018
   

Monday, November 21, 2016

Pir Bakoti 94th Urs ceremony,


حضرت پیر فقیراللہ بکوٹیؒ کا سالانہ عرس بکوٹ شریف میں اختتام پذیر، پیر صاحب چورہ شریف کی خصوصی شرکت
 **********************
حضرت پیر فقیراللہ بکوٹیؒ کا سالانہ عرس  اتوار کوللال شریف ،بکوٹ میں اختتام پذیر ہو گیا ہے، عرس کے آخری روز حضرت پیر سعادت علی شاہ، سجادہ نشین چورہ شریف ، اٹک اور چکوال سے عبدالقدیر اعوان سمیت علمائے کرام نے حضرت پیر بکوٹیؒ کی سیرت پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کی روحانی اور دینی خدمات کو خراج عقیدت پیش کیا جبکہ اس موقع پر قاری تنزیل الرحمٰن جدون اور دیگر ثنا خوانوں نے بارگاہ امام الانبیا ﷺمیںنذرانہ عقیدت پیش کیا، تقریب کی صدارت سجادہ نشین صاحبزادہ پیر محمد زائر بکوٹی نے کی۔
اس اجتماع کی چند جھلکیاں اس طرح سے ہیں:۔
   پہلی بار یہ اجتماع مزار شریف کے بجائے اس سے متصل پیر بکوٹی مسجد میں ہوا۔
  پہلی بار پیر صاحب چورہ شریف حضرت پیر سعادت علی شاہ، چکوال سے عبدالقدیر اعوان اور مری کے مولانا سیف اللہ سیفی نے بھی شرکت اور خطاب کیا۔
  اس اجتماع میں پہلی بار صاحبزادہ پیر محمد زائر بکوٹی کے فرزند صاحبزادہ پیر محمد حسین بکوٹی نے بھی خطاب کیا۔
  اس بار نامعلوم تخریب کاروں کی جانب سے مزار شریف کو نقصان پہنچانے کی دھمکی بھی دی گئی تھی تا ہم بکوٹ پولیس کے ایس ایچ  گلزار خان جدون کی طرف سے فول پروف سیکورٹی انتظامات کی وجہ سے کوئی نا خوشگوار واقعہ پیش نہیں آیابلکہ حضرت پیر بکوٹی ؒکے مہمانوں کی تعداد پہلے سے کئی گنا زیادہ تھی۔
  عرس کے انتظامات کی ذمہ داری پہلے کی طرح حکیم ڈاکٹر محمود احمدجدون قادری آف اوسیا کے پاس تھی جو انہوں نے خوب نبھائی، انہوں نے نارنجی رنگ کا چغا بھی صاحبزادہ پیر محمد زائر بکوٹی کو پیش کیا۔
عرس کے پہلے دوایام کے دوران بعد نماز عشا محافل نعت منعقد کی گئیں جن میں معروف ثنا خوانوں نے بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں عقیدتوں کے نذرانے پیش کئے۔

عرس کے آخری روز علمائے کرام اور دیگر مقررین کے علاوہ آستانہ عالیہ قادریہ للال شریف بکوٹ کے سجادہ نشین صاحبزادہ پیر محمد زائر بکوٹی نے پیر بکوٹیؒ کے مہمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ  ۔۔۔۔  مسلمان فرقہ واریت ترک کر کے اسلامی پرچم تلے مجتمع ہوں،اور شرک جیسے گناہ کبیرہ سے اجتناب کریں، حضرت پیر فقیراللہ بکوٹیؒ نے اپنے دلنشیں انداز بیاں اور فکرو عمل سے اس کوہسار کے ایک ایک فرد تک خدا اور اس کے رسولﷺ کا پیغام پہنچایا،یہی وجہ ہے کہ آج ان کے عقیدتمند ان کی ان خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ان کی اس ابدی آرام گاہ پر حاضر ہوئے ہیں  ۔۔۔۔  اس موقع پر ملک و قوم کی ترقی، ملک میں اسلام کی سر بلندی اور باران رحمت کیلئے سید سعادت علی شاہ آف چورہ شریف، اٹک نےدعا کی اور اس کے بعد نماز ظہر ادا کی گئی۔
عرس تقریبات ۔۔۔۔ کیمرے کی آنکھ سے